
| یہ ٹِمٹِماتی ہوئی روشنی دیے کی ہے بہت طویل کوئی زندگی دیے کی ہے |
|
|
| ہوائے تند نے گل کردیے ہیں شمس و قمر یہ روشنی جو ہے باقی کسی دیے کی ہے |
|
|
| شبِ سُخن میں یہ رونق کمالِ فن کی نہیں ہے جو بھی رونقِ محفل سبھی دیے کی ہے |
|
|
| یہ لَو جو سُرخی دکھاتی ہے تم کو خوں کی مرے اسی سے آج بھی کھیتی ہری دیے کی ہے |
|
|
| دیوں سے بھاگنا تقدیر ہے اندھیروں کی وگرنہ کس سے کوئی دشمنی دیے کی ہے |
|
|
| تم حسن ظن ہی سمجھ لو مگر لگے ہے یہی کہ ہلکے ہلکے بھڑکنا ہنسی دیے کی ہے |
|
|
| سُخن تمہارے بہت خوب ہیں مگر اشعؔر تمہاری ذات میں سب آگہی دیے کی ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment