
ہمارے دستِ طلب میں کوئی سوال کہاں انا پرستی کی اس سے بڑی مثال کہاں |
|
جمالِ یار کہاں نسبتِ جمال کہاں ہمارا وہ مہِ کامل کہاں، ہلال کہاں |
|
چلا تو آئے وہ ظالم ہمیں منانے مگر ہمارے پاس کرامات کا کمال کہاں |
|
وہ دل میں درد کی لذّت کی حال کیا جانے مُیسّر اس کو ابھی دولتِ ملال کہاں |
|
وہ لوٹ آئے تو دروازہ بند کیسے کریں ہمارے پاس محبّت کا ایسا کال کہاں |
|
جو زخم تم نے دیئے ہیں سبھی نئے ہیں ابھی ابھی سے ان کا ہمیں فکرِ اندمال کہاں |
|
جو کھانے والے پہ سو بار اپنے ناز کرے سبھی کے حصّہِ میں وہ لقمۂ حلال کہاں |
|
سوائے نعرۂ تکبیر و کلمہ اپنا کہاں ہے کوئی سپر اور کوئی ڈھال کہاں |
|
سفر تو ٹھیک ہی لگتا ہے یہ مگر اشعؔر چلا ہے لے کے ہمیں اب غمِ مآل کہاں |
|
No comments:
Post a Comment