یہی نتیجہ نکلنا تھا انتظار کے بعد یقیں کسی کا نہیں تیرے اعتبار کے بعد |
وہ دل لگی جسے تم پیار کہہ رہے تھے ابھی وہ بار بار کب ہوتا ہے ایک بار کے بعد |
|
تمہی نہیں ہو یہاں ایک برگِ آوارہ کسے ملی رہِ منزل، رہِ فرار کے بعد |
|
خدا کرے کہ اب ایسا کچھ اہتمام رہے خزاں قریب نہ آئے تری بہار کے بعد |
|
تمام شہر سے کچھ مختلف تو تم بھی نہیں سو تم بھی آئے ہو، احوالِ سازگار کے بعد |
|
مرا خیال ہے اب تم بھی اُٹھ چلو جاناں کہ محفلیں کہاں جمتی ہیں انتشار کے بعد |
|
خود اپنے شعلے ہی پائے گی برق چار طرف ملے گا اور مرے گھر سے کیا شرار کے بعد |
|
بچا سکتے ہو اپنی خودی کو تم بھی مگر کچھ اپنی ذات پہ تشکیل انحصار کے بعد |
|
بتاتی رہتی ہے اکثر زمیں کی بے چینی سُکون ہوتا ہے قائم کچھ اضطرار کے بعد |
|
یہاں کا شورِ سلاسل بھی دائمی تو نہیں نہ ہوگی رونقِ مقتل بھِی جاں نثار کے بعد |
|
میں روشنی کا تصوّر ہی کیا کروں اشعؔر چراغ اور کہاں ہے دلِ فگار کے بعد |
|
No comments:
Post a Comment