
|
|
| خود ہی آجائے گا دنیا سے بغاوت کرنا پہلے تم سیکھ تو لو ہم سے محبّت کرنا |
|
|
| کربِ تنہائی تجھے بھولنا مشکل ہے مگر لمحۂ وصل کو کیا نذرِ شکایت کرنا |
|
|
| آئینے کہتے ہیں لو ہار گئے مان گئے تم کو آتا ہے مری جان قیامت کرنا |
|
|
| ہم جہاں درسِ وفا لیتے رہے ہم کو وہاں جرم بتلایا گیا ترکِ محبّت کرنا |
|
|
| دل میں ارمانوں کی ہرروز نئی بزم سجے ہاں یہی ہوتا ہے جاں وقفِ ہلاکت کرنا |
|
|
| دیکھو مُرجھا گئے سب پھول کہا تھا میں نے جانے انجانے میں تم ان کو خفا مت کرنا |
|
|
| نالہ و آہ و فغاں گریہ و زاری اشعؔر درد کو آتا ہے زخموں کی وکالت کرنا |
|
|
No comments:
Post a Comment