
| تمہارے درد و الم دل میں جب بسا کے چلے ہم اپنی ذات میں اک بزم نو سجا کے چلے |
|
|
| وفا شناس تھے جتنے گزر گئے گمنام چلے تو تذکرے عالم میں بے وفا کے چلے |
|
|
| یہ کیسی رُت ہے کہ کانٹوں میں بھی گُداز سا ہے چمن میں لگتا ہے جیسے قدم صبا کے چلے |
|
|
| اندھیرا تاکہ مجھے زیست کا دکھائی نہ دے وہ میری آنکھ میں اک کہکشاں سجا کے چلے |
|
|
| امیرِ شہر ہمارا پیمبرِ شب ہے نشانِ صبح نہ پھر کیوں مٹا مٹا کے چلے |
|
|
| جہاں میں ظلمتِ شب کا کہاں رہے امکاں ہر اک شخص اگر اک دیا جلا کے چلے |
|
|
| کہاں سے لائیں کہانی میں دورِ جام و سبو کہ دور اپنے خرابے میں بس سزا کے چلے |
|
|
| یہی تو زیست میں بس ایک جیت اپنی ہے ہم اپنے آپ کو تم سے ہراہرا کے چلے |
|
|
| ہر ایک گام پہ خطراتِ شِرک ہیں پھر بھی وہ کامیاب رہے گا جو بچ بچا کے چلے |
|
|
| یہ باغباں کی ہی سازش سے ہوسکاممکن خزاں بہار میں آئے، قدم دبا کےچلے |
|
|
| دکھاؤ دہر میں اک شخص بھی کہیں اشعؔر جو ساتھ اجل کے رہے اور بن دعا کے چلے |
|
|
No comments:
Post a Comment