
خشک ہے حلق مرا، خالی ہے ساغر کہہ دوں کیوں نہ اے ساقی مرے تجھ کو ستم گر کہہ دوں |
|
بھوک نے کھا لیا ہر خوفِ رسن و دار ترا تو جو چاہے تو میں جابر تجھے منہ پر کہہ دوں |
|
میں تمہارا ہوں، یہ پیغام تو پہنچا ہوگا پھر بھی وشواس نہیں ہے تو میں آکر کہہ دوں |
|
مجھ سے کیا پوچھے ہے ان آنکھوں کی گہرائی ابھی دو گھڑی ڈوب کے کیا رازِ سمندر کہہ دوں |
|
میری ہر آرزو اس کی بھی تمنّا ہے مگر اس کے ہونٹوں پہ نہ آئے تو میں کیوںکر کہہدوں |
|
ہو تو جائے گا وہ ناراض مگر کیا کیجیے ضبطِ دل سے ہی سہی، کچھ تو میں اشعؔر کہہ دوں |
|
No comments:
Post a Comment