وہ میرے ساتھ بہت دور تک گیا بھی نہیں پھر اس کے بعد نگاہوں میں کچھ جچا بھی نہیں |
|
لبوں پہ اس کے ملاقات کی دعا بھی نہیں مجھے یقین ہے لیکن، وہ بے وفا بھی نہیں |
|
ہم اپنے شہر کے منصف سے اور کیا مانگیں ہمارے نام تو اس کے یہاں سزا بھی نہیں |
|
نہ جانے کب سے نہ آئی تمہاری خوشبوبھی ہمارے ساتھ تو لگتا ہے اب صبا بھی نہیں |
|
میں کم نگاہی کا اس سے گلہ ہی کیسے کروں مرے لبوں پہ کوئی حرفِ مُدَّعا بھی نہیں |
|
تمہاری یادوں سے آباد میرا دل جاناں نہیں ہے دشت سا ویراں مگر بسا بھی نہیں |
|
نکل تو جاتے پھر اک بار ہم سفر پہ مگر تمہارا جیسا کوئی ہمسفر ملا بھی نہیں |
|
وہ اعتدال کا قائل ہے اس لیے شاید بہت چُھپا بھی نہیں ہے، بہت کھُلا بھی نہیں |
|
مُخالفت کا گلہ دوستوں سے کیا اشعؔر ہمارے دوش پہ یارو رُخِ ہوا بھی نہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Sunday, May 3, 2009
وہ میرے ساتھ بہت دور تک گیا بھی نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment