Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید

Saturday, April 18, 2009

جاذب قریشی - "تلخ و شیریں" سے "رختِ زندگی" تک منیف اشعر کی شاعری - نقد نظر




جاذب قریشی

تلخ و شیریں سے رختِ زندگی تک [منیف اشعؔر کی شاعری - نقد  نظر]۔


ہمارے تخلیق کاروں میں ایسے لوگ بھی شریک رہے ہیں جن کا خاندان علمی و ادبی اور ثقافتی و تہذیبی روایات کا نمائندہ رہا ہے۔ منیف اشعؔر بھی ایک ایسے ہی شاعر ہیں۔ میں نے اپنے بچپن سے ان کے بڑے بھائی حنیف اخگؔر کو اپنے والدِ محترم اثؔر ملیح آبادی کی نعت پڑھتے ہوئے سناہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ حنیف اخگؔر کا ترنّم مشاعروں میں پسند کیا جاتا تھا۔ موجودہ زمانہِ میں حنیف اخگؔر شمالی امریکہ میں اردو کلاسیکی روایت کے ایک نمائندہ شاعر ہیں۔


منیف اشعؔر ہندوستان سے پاکستان آنے کے بعد دوسرے ممالک میں رہے ہیں، لیکن وہ کبھی اپنی علمی و ادبی روایات سے غافل نہیں ہوئے۔ شعر و ادب اور زبان و بیان کی اہمیت کو انہوں نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر لکھنے پڑھنے والوں میں ان کا نام جانا پہچانا جاتا ہے۔ منیف اشعؔر کی شاعری زندگی کے اجلے اور سیاہ، مثبت اور منفی تجربوں کی شاعری ہے، جو انسان کے داخلی و خارجی دونوں وجودوں کو اظہار میں لاتی ہے۔ وہ پاکستان کے معاشرتی فکر و عمل کو اتنا تو نہیں جانتے جتنا خود یہاں کے باشندے جانتے ہیں، پھر بھی پاکستان کے سماجی، سیاسی، عمرانی، اور تہذیبی روّیوں کو ان کی شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ میں نے منیف اشعؔر کی پوری شاعری کو تسلسل کے ساتھ پڑھا ہے ۔۔۔ اور مجھے ان کے تجربوں میں جو رنگ نظر آئے ہیں میں چاہوں گا کہ ان رنگوں میں سب سے پہلے ان کے معاشرتی تجربہِ کو پیش کیا جائے؂


تعصّب کی فضا میں جن کو پلتے دیکھتے ہیں

ہم ان بچّوں کے مستقبل کو جلتے دیکھتے ہیں


ہمارے شہر کا احوال بس تم یوں سمجھ لو

ہنسی بچّوں کے چہروں سے بھی رُخصت ہوگئی ہے


مان ہی لے گا زمانہ تمہیں اہلِ دانش

اپنے سر پر یونہی دستار سجائے رکھنا


دیئے جلاؤ نہ بے کار تیرگی کے لیے

ترس رہے ہیں بہت لوگ روشنی کے لیے


ہمارے شہر میں تنہائی کی کمی تو نہیں

تو کس لحاظ سے پھر دشت میں رہا جائے


چمن میں اب قفس کی کیا ضرورت

جسے بھی دیکھیے بے بال و پر ہے


تم اپنے شہر میں لوگوں کے چہرے پڑھ نہ پائے

ہم اپنے جنگلوں کے جانوروں کو جانتے ہیں


منیف اشعؔر اثبات کے شاعر ہیں اس لیے منفی تجربوں سے خود کو ٹکراتے رہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہےکہ ٹوٹی ہوئی چیزیں جڑ جائیں اور بچھڑی ہوئی آسودگیوں کے رنگ

پلٹ کر آئیں۔ وہ اندھیروں میں چراغ جلانے کی دعا کرتے ہیں، اور روشنیوں سے ڈرنے والوں کو سیاہ پرچھائیوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ وہ اعلیٰ اقدار کو اور انسانی محبّتوں کو زندگی کے سفر میں ساتھ رکھتے ہیں۔ اور دوستوں کی آزمائشوں سے جاں شکستہ نہیں ہوتے۔ بلکہ بجھ کر جل اٹھنے کو حوَصلْہ مندیوں کا اعزاز جانتے ہیں۔ وہ انفرادی اور اجتماعی تعلّقات کےاثرات کو لکھتے وقت زیادہ تر شکر گزاری کا روّیہ اختیار کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ؂

یہ رات کتنی اندھیری ہے اس کا خوف نہ کر

دیا جو ترے تصرّف میں ہےاُجال کے رکھ


خزاں رسیدہ وہ پتّے جو شاخ چھوڑ چلے

چمن کو تازہ امّیدِ بہار دیتے ہیں


مرے ساتھ آنے والو! تمہیں اختیار دے کر

میں دیا بجھا رہا ہوں جسے جانا ہو وہ جائے


کیوں اس کی صداقت کو نہ جانے گا زمانہِ

روشن جو دیا تیز ہواؤں میں رہے گا


جہاں جہاں سے پکارا گیا ہوں میں اشعؔر

میں چاہتا ہوں وہاں تک مری صدا جائے


منیف اشعؔر اپنے عہدِ منافقاں میں شکایتوں اور عداوتوں سے خود کو بچانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ذاتی تجربوں کے شعور نے ان کی ذات کو بند گنبد نہیں بنایا، بلکہ ان میں ایسے دروازے کھول رکھے ہیں جہاں سے وہ خوبصورت اور بد شکل منظروں کو دیکھ کر اپنی داستان رقم کررہے ہیں۔وہ خیال کے کسی کچّے پن کا شکار نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ ہر خارجی عکس کو اپنے داخلی آئینہ خانہِ میں اتار لیتے ہیں کہ آسودگیاں اور دکھ دونوں تلخ و شیریں بن کر ان کےساتھ سفر میں نظر آتے ہیں۔ منصور و سقراط کہنے پر انہیں خوشی نہیں ہوتی، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنا ستارہ مل جائے۔ وہ ماضی کو آنکھیں بند کرکے نہیں دیکھتے، انہیں پتھر بن کر زندہ رہنا پسند نہیں ہے۔ وہ اپنے وجود کے ساتھ سفر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ جو زندگی کی تازگی اور خیال و خواب کے متحرّک ہونے کا جواز ہے؂


کوئی منصور کہتا ہے کوئی سقراط مجھ کو

مجھے لیکن مرا اپنا ستارہ چاہیے


گزر کے آگیا دریا سے اور پیاسا ہوں

کہاں تھا میرا تعارّف سراب سے پہلے



دیا ہوں میں بجھادو یا مجھے تسلیم کرلو

ہواؤ!تم مرے چاروں طرف ہو جانتا ہوں


سمجھتا ہے کوئی مخلص مجھے کوئی منافق

اتر آتا ہے سب کا عکس مجھ میں آئینہ ہوں


اب ایسا کیا ہے کہ پتھر کی آنکھ نم ہوجائے

ہماری جاں کا زیاں ایسا کوئی غم بھی نہیں


ہمارا دل تو اک آئینہ تھا سوٹوٹ گیا

فصیل انا کی وہ توڑے تو کوئی بات بنے


منیف اشعؔر محبّتوں کے سفیر ہیں۔ انہیں اپنے چاہنے والوں کا خیال رہتا ہے۔ اور وہ ان کے ساتھ آباد رہنا چاہتے ہیں، لیکن وقت کی تیزرفتاری نے بہت سی انسانی قدروں کو بدل دیا ہے، محبّت کی قیمت دی جانے لگی ہے۔ اور آئینوں کی طرح چمکنے والے اداکاروں کا لباس پہن کر سامنے آرہے ہیں۔ ان حالات کے درمیان سچّے لوگوں کے اظہار میں طنز اور غصّہ شامل ہوجاتا ہے۔ جھوٹے معاشرہِ میں سچ بولنے والوں کی آواز کڑوی ہونے لگتی ہے، اور طنز کا چاقو زیادہ چمکنے لگتا ہے۔ منیف اشعؔر کی شاعری میں بھی اس تلخی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جب وہ ان تجربوں کو لکھتے ہیں تو ان کے اُسلوب میں بلند آہنگی آجاتی ہے۔ ان کے بہت سےاشعار اس صورتِ حال کو اظہار میں لائے ہیں ؂


تری محفل میں اک چہرہ بھی دشمن کا نہیں تھا

کوئی بھی دوست لیکن دوستوں جیسا نہیں تھا


پھر کیسے نہ رکھ دیتا مرے ہاتھ پہ قیمت

بے لوث محبّت کا وہ قائل ہی نہیں تھا


آشفتہ سر ہے کوئی نہ دامن کسی کا چاک

شہرِ جنوں خرد کا پرستار ہوگیا


لکھتا رہا قصیدے جو حاکم کی شان میں

دورِ جدید کا وہ قلم کار ہوگیا


دل میں جو آئینہِ کی طرح معتبر رہا

وہ شخص بھی سنا ہے اداکار ہوگیا


کیسے آجائیں ابابیلیں لئے کنکر کہ ہم

جنگِ بےمقصد میں شامل بے دلی کے ساتھ ہیں


نجانے کیوں یہ سارا شہر ان پر مہرباں سا ہے

انہیں بھی آگیا ہوگا زمانہ ساز ہوجانا


ابھی تو اور کھلونے بہت سے ہیں اشعؔر

ابھی تمہارے لیے وعدۂ وصال کہاں


دنیا کی تمام شاعری محبّت، حسن، اور خیر کے باطنی و خارجی تجربوں کے ساتھ تخلیق ہوتی ہے۔ اور عداوت، حسد، طنز، اور جہل کے موسم دیر تک نہیں رہتے۔ منیف اشعؔر کی شاعری میں حسن محبت اور طنز کے تجربے اپنے عکس چمکا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے محبوب کو جس جس زاویہِ سے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے، وہ ان کےیہاں اظہار پاتا چلا گیا ہے۔ منیف اشعؔر کے عشقیہ آہنگ میں ایک خوش گفتاری، ایک شادابی، ایک خوبصورتی کا رنگ چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ظاہری و باطنی حسن کے جو مختلف عکس ان کے آئینہِ میں اترتے رہےہیں، وہ ان کی شاعری کا منفرد حصّہ بنے ہیں۔ ایسی شاعری عام انسانوں کے لیے بھی آسودگیوں کے دروازے کھولتی ہے؂



ہے کوئی ہم سا منصور تو بتائے کوئی

عمر بھر ایک ہی تصویر بنائے کوئی


اُسے تو ہم نے کئی زاویوں سے دیکھا ہے

وہ بے مثال سا کچھ خدوخال ہی میں نہیں


اپنا ہر عکس نئے رنگ میں دیتا ہے ہمیں

اور ہم سے وہی تصویر پرانی مانگے


وہ جس کی خوشبو معطّر بھی مضطرب کرے

ترے سوا تو کوئی اور ایسا پھول نہیں


اگرچہ بھول گئی رقصِ بے خودی لیکن

ہیں یاد شمع کو کچھ پر مرے جلائے ہوئے


اگر یہ سچ ہے کہ شوقِ وصال رہتا ہے

تو گویا اس کو ہمارا خیال رہتا ہے


فضاء میں اس کی مہک ہی نہیں اگر اشعؔر

تو کس اُمّید پہ کمرے کو پھر سجا رکھنا


محبّت کرنے والوں کو کسی کے انتظار میں آہٹیں سنائی دیتی ہیں، چہرے کے عکس چمکتےہیں، اور سماعتوں کے درمیان مانوس آواز کی جھنکار محسوس ہوتی رہتی ہے۔ محبوب سے ملنے کی خواہش کسی بے خواب ضرورت کی طرح جاگتی ہے۔ اور پھر، خود کلامی کے کئی سلسلے آغاز ہوجاتے ہیں۔ مُکالمہ ہوتا ہے، لیکن فاصلے سمٹ کر بھی دیواریں دکھائی دیتی ہیں۔ گفتگو ہوتی ہے، خوشبوئیں اڑتی ہیں، پھر بھی تنہائی نہیں جاتی۔ ہِجَر تو ہِجَر ہی رہتا ہے۔ ملاقات ہوتی ہے، مگر نہیں ہوتی۔ سب کچھ سہل ہوجاتا ہے۔ لیکن جذبوں کا ادھورا پن اور خوابوں کا بے چہرہ رہنا ہی دکھائی دیتا ہے۔ منیف اشعؔر نے شاعری کے دوران اپنے محبوب کو بہت پُکارا ہے، شعلگی کی ساعت شبنمی بن جائے، مگر انتظار کے موسم میں خزاں کی پرچھائیاں رقص کرتی ہیں۔ منیف اشعؔر کا اپنے محبوب سے مُکالمہ بھی سنیے، اور خیالی و خوابی ملاقاتوں کے عکس بھی دیکھیے۔ اس حوالہِ سے جو اشعار انتخاب میں آئے ہیں، میں چاہتا ہوں آپ بھی ان اشعار کی خوبصورتیوں کو محسوس کریں۔ اور اپنی یاد داشتوں کا حصّہ بنائیں۔ وہ لکھتے ہیں؂


خود ہی آجائے گا دنیا سے بغاوت کرنا

پہلے تم سیکھ تو لو ہم سے مُحبّت کرنا


تمام رات گزاری ہے ہم نے جلتے ہوئے

قریب آؤ مری صبح شبنمی کردو


تمہارے ہاتھ میں ہے آشنائیوں کی لکیر

جو کرسکو تو مجھے خود سے اجنبی کردو


نکل تو جاتے پھر ایک بار ہم سفر پہ مگر

تمہارا جیسا کوئی ہمسفر ملا ہی نہیں


اس کی تصویر کو سینہِ سے لگائے رکھنا

ہِجَر میں وَصلْ کا ماحول بنائے رکھنا


گریزاں اس سے رہنا اجتنابِ زندگی ہے

مُحبّت جس کو کہتے ہیں نصابِ زندگی ہے


کیسے کہوں کہ تم سے محبّت نہیں رہی

کیا مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی


تمہارے بعد نہ دریا رہا نہ پیاس رہی

نظر میں پھر کوئ اشعؔر سراب آنہ سکا

منیف اشعؔر نے فن یا ہنر کے بارے میں اپنی شاعری میں جس نظریہِ کا اظہار کیا ہے، اس کے حوالہِ سے جواشعارانتخاب میں آئے ہیں، ان میں سے چند مثالیں دیکھیے؂


کوئی بھی لفظ جہاں رکھ، بہت سنبھال کے رکھ

تأثرّات سُخن میں، نئے خیال کے رکھ


قافیہ بندی کا فن ہی تو نہیں ہے شاعری

شعر میں فکر و نظر بھی شاعرانہ چاہیے


ہے ترکِ شاعری بھی ترکِ دنیا سے عبارت

سخن گوئی ہماری آب و تابِ زندگی ہے


حصارِ ذات کے قیدی بھی ہوں گے

جہاں بھی حلقۂ اہلِ ہنر ہے


یہاں تک تو منیف اشعؔر نے اتّفاق وتائید کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے اشعار بھی ہیں، جو مُختلف ہیں۔ مثال کے طور پر؂


استعاروں کا کیا کروں اشعؔر

وہ نہیں جائیں گے معانی تک


کوئی نہ باندھنا تمہید جب بھی سچ لکھو

ہے پیش لفظ مُلمّع کتاب سے پہلے


ان اشعار میں کئی باتوں سے اختلاف کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ حسن عسکری نے 'استعارے کا خوف' میں لکھا ہے کہ چھوٹی تخلیقی قوّت کے بیانیہ لکھنے والے استعاروں سے ڈرتے ہیں۔ اور، انہیں خوف لگا رہتا ہے کہ ان کے استعاروں کی معنویت قاری تک جا بھی پائے گی یا نہیں۔ دوسری بات کتاب سے پہلے پیش لفظ لکھنا یا لکھوانا ضروری ہے، یا ضروری نہیں ہے ! اس حوالہِ سے میں یا میری طرح منیف اشعؔر کی شاعری کو پڑھنے والے یقیناً ایسا سوچیں گے کہ انہوں نے 'تلخ و شیریں' میں خود پیش لفظ لکھ کراپنے اس تائیدی نظریہِ کی تکذیب کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی منیف اشعؔر کا ایک ایسا شعر پیش کررہا ہوں، جس کی مُعنیاتی تقویم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا شعر ہے کہ ؂


فقط اس خوف سے اک اور ہجرت کی ہے میں نے

مری طرح مری اولاد بےگھر نہ ہوجائے


۔'ہجرت' کا لفظ ہماری اسلامی تاریخ ایک بہت اہم استعارہ رہا ہے۔ جو پاکستان کے تخلیقی تناظر میں ایک ایسی عمارت بن گیا ہے، جسے ناصر کاظمی سے محشر بدایونی تک ہر اہم اور غیر اہم لکھنے والے نے اپنے سچّے معنوں میں لکھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اس حوالہِ سے منیف اشعؔر یا ان جیسے دوسرے لکھنے والوں کو تلاشِ رزق کا سفر یا تلاشِ معاش کا سفر لکھنا چاہیے، صرف شہرومکاں کے بدلنے کو ہجرت لکھنا درست نہیں ہے۔


یہاں تک میں نے منیف اشعؔر کی غزلوں کے بہت سے اشعار آپ کو سنائے، اور ان کی مجموعی شاعری کی گفتگو میں آپ کو شریک رکھا۔ مگر انہوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں، جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ بعض نقّادوں کو تو ان کی نظمیں ہی پسند ہیں۔ منیف اشعؔر کی نظموں میں سماجی و معاشرتی جبر و ناانصافی کو دھیمے لہجہِ میں لکھا گیا ہے، کہ ان نظموں کی بنیاد انسانی اخلاقی اقدار پر رکھی گئی ہے۔ کچھ نظمیں قومی موضوعات پر بھی تحریر ہوئی ہیں۔ مگر ان تمام نظموں کا آہنگ و اسلوب ایک جیسا لگتا ہے۔ ان نظموں کے کچھ غیر ضروری پھیلاؤ نے تأثراتی شدّت کو کم کردیا ہے۔ اگر انہیں سمیٹ کر لکھا جاتا تو ان نظموں کی اثر پذیری میں اضافہ ہوسکتا تھا۔


مجھے ذاتی طور پر جو نظمیں بہت اچھی لگی ہیں، ان میں 'قلم جو بازار میں نہیں ہے'، اور 'وہ دیا اپنا'، 'طوائف کون'، اور' سائے 'جیسی نظمیں ہیں۔


زندگی المیوں، سانحات، اور حادثات کا شکار رہا کرتی ہے۔ اس حوالہِ سے کبھِی ایسا دکھ بھی اٹھانا پڑجاتاہے، جس کے لیے غالؔب نے لکھا تھا کہ یہ وہ غم ہے جو شرارہ بن جاتا تو پتھر کی رگوں سے لہو کے فوّارے ابل پڑتے۔ پچھلے برس منیف اشعؔر ایک ایسے حادثہِ سے گزرےہیں جس مِیں وہ خود بھی شدید زخمی ہوئے۔ لیکن ان کاجواں سال خوبصورت بیٹا شہید ہوگیا۔ ایسے ذاتی دکھوں کا لکھنا کوئی سہل نہیں ہوتا۔ منیف اشعؔر ایک حوصلہ مند شخص ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کےلیے دو نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں کے چند اشعار یہاں لکھنا چاہتا ہوں، کہ ان کے المیہِ کو محسوس کیا جاسکے ۔۔۔


ہمارا شیشہء نورِ نظر ہی ٹوٹ گیا

اب اپنا عکس ہمیں کیا کوئی دکھائے میاں


میں جاتا رہتا ہوں اس کو دعائیں دینےمگر

کبھی تو اس کی بھی آواز مجھ کو آئے میاں


جوان بیٹے کی تدفین کرکے بھی اب تک

کھڑے ہیں زندگی کاندھوں پر ہم اٹھائے میاں


مرے محبوب تو جب سے کہیں گم ہوگیا ہے

اسی دن سے ہمیں دکھ درد بن مانگے ملا ہے


مرے اشکوں کو جب کاندھا نہیں ملتا کوئی

مجھے لگتاہے دامن پہ مرے شعلہ گرا ہے


منیف اشعؔر کی شاعری کے بارے میں تمام باتوں کو سمیٹ کر کچھ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ان کی فکر و خیال میں انسانی اقدار کی پاس داریوں اور نئے زمانے کی تیز رفتار زندگی کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی کشمکش کا ایسا اظہار موجود ہے جسے زبان و بیان کی تازگی و سادگی بھی حاصل ہے۔ منیف اشعؔر کی شاعری سے عام پڑھنے والے بھی متأثّر ہوسکتےہیں، اور خاص لوگوں کے لیے بھی اپنی خوبصورتی منیف اشعؔر کی شاعرانہ بنیاد میں آئینہ گری کر رہی ہے، جو کسی سچّے ہنر کی اور کسی ذاتی تجربہِ کی پہچان کراتی رہتی ہے۔

* * *


No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects