Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید

Saturday, April 18, 2009

پروفیسر آفاق صدّیقی -[مقالہ] رختِ زندگی کا شاعر - منیف اشعر



پروفیسر آفاق صدّیقی

رختِ زندگی کا شاعر – منیف اشعؔر

[ مقالہ -- ایک دل کش لہجہِ کا غزل گو]


سید منیف اشعؔر اور ان کے برادرِ بزرگ جناب حنیف اخگرؔ دنیائے ادب کی معروف شخصیات ہیں۔ خصوصاً شاعری کے حوالہِ سے دونوں معتبر شعرائے کرام کے شعری مجموعہ منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں۔ والدِ بزرگوار بھی قادرِ الکلام شاعر تھے۔اسم گرامی سید محمد شریف ،اور اثرؔ تخلص فرماتے تھے۔ ان کا یہ خوبصورت شعر میں اکثر دہراتا رہتا ہوں؂

انہیں ہر قدم پر اس لیے آواز دیتا ہوں

نہ جانے کس قدم پر موت کا پیغام آجائے

خیر سے منیف اشعؔر ملیح آبادی کی والدہ محترمہ بھی شعر و ادب کا پاکیزہ ذوق رکھتی تھیں، لیکن ان کی آغوشِ شفقت میں اشعؔر کو صرف دو برس ہی رہنے کی سعادت و راحت حاصل ہوسکی۔ ظاہر ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں آغوشِ مادر سے محرومی حسّاس دلوں پر کیا قیامت ڈھاجاتی ہے۔ ماں سے محرومی کا یہ غم موصوف کی شعری تخلیقات میں متعدّد اشعار کی صورت ظاہر ہوا ہے۔

ملیح آباد دبستانِ لکھنئو ہی کا ایک قابلِ قدر شہر رہا ہے۔ جیسا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی کی شخصیت سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ زبان و بیان اور شعر و ادب کے ایک تربیتی گہوارہِ کی حیثیت سے وہ کیا ہوگا۔

اشعؔر نے اپنے وطنِ مالوف میں بچپن تو گزارا ، مگر جنوری 1951ء میں سات افراد پر مشتمل کربِ مہاجرت جھیلتا ہوا     ایک کنبہ کراچی میں آبسا۔ گویا اشعؔر کی تعلیم و تربیت کے مراحل شہرِ قائد میں طے ہوئے۔ تلاشِ معاش میں پہلےسرزمینِ حجاز کا رُخ کیا، اور پھر غالباً 1992 ء میں کینیڈا چلے گئے۔ جہاں تاحال مقیم ہیں۔ مگر کہتے ہیں 'پاکستان ہی میری پہچان ہے۔' ۔

کراچی میں پچھلے دس، بارہ برسوں سے ایک مہتمم بالشان عالمی مشاعرہ ترتیب دیا جاتا ہے۔ جس میں شعرائے کرام کی تعداد سے قطع نظر، ان آنکھوں نے چالیس پچاس ہزار سامعین اور حاضرین کا مجمع بھی دیکھا ہے، جو کسی کسی گوشہِ میں غولِ بیابانی کا سماں دکھاتا ہے۔

جناب حنیف اخؔگر جو حضرت جگرؔ مرادآبادی کے کلام اور خصوصاً رُوح پرور ترنّم سے بہت متأثر رہے ہیں، شہرِ قائد کے مذکورہ عالمی مشاعرہِ میں کئی سال سے شریک ہوتے رہے ہیں، اور داد و تحسین نہ صرف بہت بڑے مرکزی عالمی مشاعرہِ میں حاصل کی، بلکہ اس کے بعد جو ذیلی عالمی مشاعرے اس شہر میں انعقاد پذیر ہوتے ہیں، ان میں بھی بھائی اخگرؔ کی شرکت لازمی سمجھی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ موصوف نیویارک سے تشریف لاتے ہیں۔

اب پچھلے دوبرسوں سے برادرم منیف اشعؔر کینیڈا کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ پچھلے سال آئے تو یہاں ایک خوبصورت شعری مجموعہ، 'تلخ و شیریں' کی اشاعت بڑے اہتمام اور جمال آفریں انداز میں ہوئی۔ بلکہ جو تقاریبِ تعارّف منعقد ہوئیں، ان میں شریک ہونے کی سعادت راقم الحروف نے بھی پائی۔

اسی روایت کو اب 'رختِ زندگی' کی صورت میں دہرایا جارہا ہے۔ آئیے اب آپ کو 'رختِ زندگی' کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے 'تلخ و شیریں' سے ارمغانِ محبّت کے طور پر چند اشعار کی سیر کراؤں۔ اور سب سے پہلے مدینہ منوّرہ کے حوالہِ سے یہ شعر نذرِ سعادت کروں:۔

خاک ہونے کو نہ کیوں خاک مدینہ مانگوں

اس سے بڑھ کر تو حسیں کوئی زمیں اور نہیں

اب متعدّد غزلوں سے میری پسند کے چند اشعار:۔

تجھ کو دیکھا ہی کہاں دنیا نے میری آنکھ سے

ورنہ ہر لب پر یہی ہوتا کہ تو اچھا لگا


نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں

جیسے نادیدہ اندھیرے روشنی کے ساتھ ہیں


اب اس سے بڑھ کے کس کو ملے گی تونگری

قسمت میں جس کی دولتِ رزقِ حلال ہے


دل میں یوں رہتی ہے تکمیل تمنّا کی امّید

دور صحرا میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے


اک تم ہی نہیں ہو کہ جسے بھول رہا ہوں

یاد اور بھی کچھ خواب سہانے نہیں آتے


گھر آپ کا بھی دور نہیں رہ گیا ہے اب

اتنا وسیع حلقۂ آتش نہ کیجیے


یہ وہی دل ہے جسے اک انجمن کہتے تھے آپ

اس کھنڈر کو آج ویرانہ تو کہتے جائیے

۔'تلخ و شیریں' میں غزلوں کے ساتھ ساتھ دیگر اصنافِ شاعری کی نمائندگی بھی ہوئی ہے۔ خصوصاً نظمِ آزاد کی صورت میں حیات و کائنات کے رنگارنگ موضوعات پر جو نظمیں میری نظر سے گزریں ان میں معروضیت کا فکر انگیز انعکاس ہی نہیں، جمالیاتی اقدار کا وہ ارتکاز بھی بڑا دل کش ہے، جو لفظ و بیاں کو شاعری کے دائرے میں لاتا ہے۔

بہرکیف، بھائی اشعؔر کی شاعری کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سابقہ شعری مجموعہِ کا مطالعہ کیا جائے۔ جس میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، راغب مراد آبادی، مشفق خواجہ، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر فہیم اعظمی، اور محسن بھوپالی کے تبصرے بھی شامل ِ اشاعت ہیں۔

۔'رخت زندگی' میں بھی زیادہ تعداد نئی غزلوں کی ہے۔ اور کچھ نظمیں بھی ہیں۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو غزل گوئی سے عشق ہے۔ اور کیوں نہ ہو، یہ عشق تو موصوف کی گھُٹّی میں پڑا ہے۔

میں اپنی ناگزیر مصروفیات کی بناء پر فی الوقت تفصیلی طور پر تو ان لفظی اور معنوی محاسن کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہوں، جو اس شعری مجموعہِ میں قارئین کرام کو یہ باور کرائیں گے کہ 'رختِ زندگی' کی غزلوں میں وہ جمالیاتی اظہارِ ارتقاء کی نئی منزل سے ہمکنار ہوکر کتنا نکھرا ہے، جو 'تلخ و شیریں' میں تھا۔ زندگی میں خوشی اور غم کے لمحات آتے جاتے رہتے ہیں، اور یہ تسلسل آخری سانس تک باقی رہتا ہے۔

اشعؔر نے اس شعری مجموعہِ کے حوالہِ سے یہ کہا ہے ؂

بہت زیادہ نہ ہو رختِ زندگی اشعؔر

بس اتنا رکھیے کہ دنیا لگے سرائے میاں


جب میں نے یہ شعر پڑھا تو فوراً خیال آیا کہ ایک سرسری نظر 'تلخ و شیریں' پر پھر ڈال لوں۔ تاکہ اندازہ ہوسکے کہ جو زندہ دلی مذکورہ شعری مجموعہِ میں زیادہ ملی تھی، وہ کہاں رخصت ہوگئی، جو اب شاعر کو یہ جان گداز احساس دے گئی کہ زندگی کی حیثیت ایک سرائے کے سوا کچھ نہیں۔

بات کچھ یوں ہے کہ بھائی اشعؔر کینیڈا جیسے خوش حال ملک میں مادّی طور پر آسودہ حال زندگی بسر کررہے ہیں۔ مگر بذاتِ خود عارضہء قلب کا شکار ہوئے، جان لیوا آزار [کینسر] سے سابقہ پڑا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہیں جیتی جاگتی حالت میں دوبارہ دیکھا تو جی خوش ہوا۔ درازیء عمر اور عزیز و اقارب کے ساتھ شاد و آباد رہنے کی دعائیں دیں۔ البتّہ اس احساس سے آنکھیں بھیگنے لگیں کہ موصوف کی دروں بینی، احساس میں ایک روح فرسا کرب اپنے جواں سال بیٹے سید محمّد دانش کی رحلت کے غم کو چھپائے ہوئے ہے۔ اوپر جو شعر میں نے پیش کیا، وہ درحقیقت ایک مرثیہ نما غزل کا آخری شعر ہے۔ اس سے پہلے جو دل گداز اشعار ہیں، ان میں سے تین چار اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں؂


نہ دشمنوں پہ بھی میرے یہ وقت آئے میاں

جواں پسر سے خدا صبر آزمائے میاں


ہمالہ جیسے دکھوں پر لہو نہ روئیں تو پھر

فرارِ غم کا ہی رستہ کوئی سُجھائے میاں


چمن میں تتلیاں اور پھول سب وہی ہیں مگر

ہمارے دل میں کہاں سے بہار آئے میاں


لگے ہے لمحہ بکھرنے میں زندگی اور ہم

کھڑے ہوئے ہیں زمانوں سے لو لگائے میاں


میں جاتا رہتا ہوں اس کو دعائیں دینے مگر

کبھی تو اس کی بھی آواز مجھ کو آئے میاں

میں خلوتِ شب میں بھائی اشعؔر کے یہ اشعار پڑھ رہا تھا کہ حافظہِ میں ایک ایسا غم انگیز شعر تازہ ہوا، جس کا اطلاق ان اشعار کی مجموعی تأثریت پر کیا جاسکتا ہے؂

اللہ دکھائے نہ الم نور نظر کا

بہہ جاتا ہے آنکھوں سے لہو قلب وجگر کا

یقیناً اشعؔر کا حال بھی اس سے مختلف نہ ہوگا۔ لیکن ہوش مند مردِ مسلماں ہیں، صبر و شکیب کے مفہوم سے بخوبی آشنا اور اس حقیقت سے واقف کہ ؂

غم کے بغیر زندگی بادۂ بے سُرور ہے

زحمتِ میکشی نہ دیکھ حاصلِ میکشی سمجھ

ہماری کلاسیکی غزلوں سے لے کر عصرِ حاضر کی معقول غزلوں تک غم و الم کے کتنے رنگ ہیں ۔۔۔ یہ بات شاعری کے سنجیدہ قارئین اچھی طرح جانتے ہیں۔ لسّان العصر اکبرالہٰ آبادی کے ایک مصرعہِ میں غم کی اہمیت و افادیت اتنی عمدگی سے واضح ہوئی ہے کہ علاّمہ اقبال نے اپنے ایک مکتوب میں اس کی تحسینِ سخن شناس کے طور بہت کچھ لکھا ہے۔ اکبؔر نے کہا ۔۔۔۔۔

غم بڑا مُدرکِ حقیقت ہے”

بیشک لذّتِ غم سے آشنائی نے اشعؔر کی اس کتاب کے اشعار میں بڑی روح پرور جھلکیاں دکھائی ہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار پیش کرتا ہوں ؂

تُو ایک مُدّت سے اپنوں کی طرح ہے ساتھ لیکن

غمِ فرقت! میں اب تجھ سےرہائی چاہتا ہوں


ایک عالم کو بہالے جائیں اشکِ غم مگر

احتیاطِ عشق میں ہے بحرِ غم ٹھہرا ہوا


تجھے محسوس ہوتا ہے تغیّر تو عجب کیا

کسی کا غم مری خوشیوں میں شامل ہوگیا ہے


وہ جب بھی چاہے گا آکر مرے خیالوں میں

غمِ فراق سرورِ وصال کردے گا

غزل گفتگو کا آرٹ ہے۔ اور گفتگو کے ہزار رنگ اور ہزار ڈھنگ ہوتے ہیں۔

حیات و کائنات کی رنگینیوں اور شیرینیوں کا براہِ راست اور علامتی اظہار بھی اس آرٹ کی جان ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ غزل کہنے والا آدابِ غزل گوئی سے آشنا ہو۔ زندگی میں غمِ دوراں اور غمِ جاناں دونوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کشمکشِ حیات کو غزل گو شاعر ایمائیت اور رمزیت کا رچاؤ برقرار رکھتے ہوئے کس کس انداز سے بیان کرتا ہے، تشبیہات ا ستعارات اور تلمیح و کنایہ وغیرہ سے کیا کام لیتا ہے، اس کا احساس و ادراک اُن اہلِ ذوق کو بخوبی ہوگا جو متقدمین، متوسطین، اور متأخرین غزل گو شعراء کی غزل گوئی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

منیف اشعؔر نے اپنے پہلے مجموعہِ میں نظموں کا بھی حصّہ رکھا ہے، اور اُس حصّہ میں نظمِ آزاد کے بھی بڑے خوبصورت تخلیقی فن پارے شامل تھے۔ مگر، یہ دوسرا مجموعہ نظموں سے خالی ہے۔ اور جو نظمیں ہیں بھی، وہ غزلِ مسلسل کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ جس کی ایک مثال وہ اشعار ہیں جو انہوں نے اپنے جواں سال بیٹے کی رحلت پر کہے۔ بہرکیف، یہ نفسیاتی باریکی تلاش کرنا میرے لیے مشکل ہے کہ انہوں نے اپنے ذوقِ شاعری کو اب صرف غزل گوئی کے لیے کیوں مخصوص کردیا! ۔ ان کے اس شعری مجموعہِ میں دکھ، درد کے لمحوں کی عکّاسی کس انداز میں ہوئی ہے، ذرا درج ذیل غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؂

ہمار دکھ کوئی سمجھے سوال ہی کم ہے

ہمارے زخموں کی شاید مثال ہی کم ہے


لہو بہانا مری آنکھیں چھوڑ کیسے دیں

بھرا ہے زخم نہ اس کا خیال ہی کم ہے


اگرچہ زخم بھی گہرا ہے درد بھی لیکن

شکایتوں کی خدا سے مجال ہی کم ہے

یہ تو رہا دکھ درد کا اظہار۔ اس غزل میں ایسے اشعار بھی موجود ہیں جو دلوں کو دُکھی نہیں کرتے ۔۔۔ بلکہ، ہیجانِ جذبات میں ٹھہراؤ سا محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً :۔

یونہی نہیں ہے کمی قلبِ مطمئن کی فزوں

نظر کے سامنے فکرِ مآل ہی کم ہے

اس شعر میں معنوی طور پر غم کا شدید احساس تو موجود ہے، لیکن شاعر نے اسے وارداتِ قلبی کے لحاظ سے ایک ایسا رنگ دیا ہے کہ ہم گہری فکر میں ڈوبنے لگتے ہیں۔ اگر میں اپنے طورپر اس شعر کی تشریح و توجیہہ کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی، اس لیے اب اگلے شعر کی جھلک دیکھیے ؂

کسی کا دل مری باتوں سے ٹوٹ جائے کبھی

مرے سخن میں یہ حسنِ کمال ہی کم ہے

دیکھا آپ نے، کتنی خوبصورتی سے “خیالِ خاطرِ احباب” کا ذکر کیا ہے۔ بھلا ایسا شخص کسی کے دل توڑنے کی بات کیسے کرسکتا ہے۔ جو بذاتِ خود اتنا دل شکستہ ہو۔

اشعؔر کی غزلوں میں اکثر بیشتر مُجھے یہ حُسنِ اظہار بھی ملا ہے کہ اپنے آپ کو خود ستائی سے بچاتے ہوئے مخصوص لہجہِ میں عجزوانکسار کی لذّت شناسی کو رواں رکھا ہے۔ مثال کے طور پر ذرا ان اشعار کے تیور دیکھیے ؂

بس اک یہی تو شکایت رہی ہے ان کو سدا

کہ آئینوں میں ہمارے جمال ہی کم ہے


یہ کہہ تو دیں کہ سُخن مستند ہے اپنا مگر

ہمارے ذہن میں ایسا وبال ہی کم ہے

ان دو اشعار میں ایک بات تو احساسِ جمال کی ہے، جو میرے خیال میں غزل گوئی کے لیے لازمی ہے۔ اور یقیناً شعر کے آئینہ خانہء تصوّر میں بھی ایک منجھے ہوئے غزل گو کی حیثیت سے جمالیات کے پہلو نمایاں رہے ہیں جن کی مثالیں دینا اس لیے ضروری نہیں سمجھتا کہ 'رختِ زندگی' آپ کے سامنے ہے۔ ان آئینہ خانوں کو خود ہی دیکھ لیجیے، جو جمال کی کمی کا شکار نہیں ہیں۔

رہی یہ بات کہ وہ اپنے آپ کو ایک مُستند سُخن ور کہیں یا نہ کہیں، قارئین خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں جو اُسلوبِ بیان اپنایا ہے و ہ ان کا اپنا ہونے کے ساتھ ساتھ لہجہِ کی نرمی اور الفاظ کی موزونیت کا آئینہ دار ہے۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ ان کے ذہن میں 'انانیت' کا کوئی ایسا وبال نہیں ہے جو 'ہمچو ما دیگرے نیست' کے مصداق ہو۔

رختِ زندگی میں 'بیم و رجا' کی کیفیات کا ایک عالمِ بسیط ہے۔ زندگی نے کس کس طرح لفظوں کی صورت میں اشعؔر کے افکار و وجدان سے خراج وصول کیا ہے، اس کی تفصیل یہ پورا مجموعٔہ کلام ہے۔

مجھے اب صرف یہ کہنا ہے کہ اپنے زمانۂ طالب علمی سے لے کر اب تک غزل کا شیدائی رہا ہوں۔ گاہے گاہے خود ہی غزلیں کہیں، اور بہت کہیں۔ مگر اپنی تحقیقی مصروفیات کی بناء پر پچھلے 30 برسوں کے دوران زیادہ تر یہ مشغلہ رہا ہے کہ شعراء کرام کے نئے نئے شعری مجموعوں کا مطالعہ کرکے اپنے ذوقِ شاعری کو تسکین دیتا ہوں۔ ہاں، کبھی کبھی کوئی نظم یا غزل کے ایک دو اشعار ضابطہء تحریر میں آجاتے ہیں۔

میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بھائی منیف اشعؔر ایک اچھے غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں محاسنِ شعری کی کمی نہیں۔ بے عیب ہونا تو بڑے بڑے سخن ور کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ مگر 'رختِ زندگی' میں معائب سخن بھی ہوں تو کوئی عجب بات نہیں۔ مجموعی طور پر ان کی غزلوں میں ایسی خلل اندازیاں نظر نہیں آتیں، جو غزل گوئی کے فن کو مجروح کریں۔

جی تو چاہتا ہے کہ ان کی غزلوں سے جو اشعار میں نے اپنے لیے منتخب کیے ان سب کو آپ کے سامنے پیش کردوں، لیکن پھر اس مجموعہِ کی اشاعت کا جواز کیا رہ جائے گا۔ اس لیے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ منیف اشعؔر اپنے وطن سے بہت دور کینیڈا کی سرزمین پر شعر و ادب کی جو شمع روشن کیے ہوئے ہیں، اس کی روشنی لائقِ تحسین و آفرین ہے۔ کارسازِ حقیقی انہیں سلامت باکرامت رکھے، اور زبان و ادب کی سفارت کاری کے فرائض  جو یہ دیارِ غیر میں بڑی ثابت قدمی اور دلجمعی سےادا کررہے ہیں، اس میں خیر و برکت کے پہلو نمایاں رہیں۔

مجھے ذاتی طور پر ان کی غزلیں بہت پسند ہیں۔ اور اس شعری مجموعہِ کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔


* * *

No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects