Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید

Friday, April 17, 2009

پروفیسر سحر انصاری - ایک حوصلہ مند آواز




پروفیسر سحر انصاری

ایک حوصلہ مند آواز


سیّد محمد منیف اشعؔر ایک مُدّت سے شعر کہہ رہے ہیں۔


ان کی ذاتی زندگی میں ایسے واقعات اور تجربات کا دخل رہا ہے کہ ذہن و قلب پر مرتّب ہونے والے کرب کو وہ شاعری ہی کے ذریعہِ کم کرسکتے ہیں۔


انہوں نے ذاتی بیماری کا اس طرح مقابلہ کیا کہ اشعؔر صاحب کے لیے ان کے حوصلہِ اور استقلال کی داد بے اختیار اظہار پاجاتی ہے۔ حال ہی میں وہ ایک نہایت ہی شدید سانحہِ سے دوچار ہوئے۔ 28 اگست 2003ءکو ان کے جواں سال صاحبزادہِ سیّد محمدّ دانش ایک کار کے حادثہِ میں شہید ہوگئے۔ یہ کتنا بڑا غم ہے، اس پر کوئی تبصرہ ممکن نہیں۔ بقول میر انیؔس ؂


دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے


حسبِ سابق منیف اشعؔر نے اس غم کو بھی صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیا۔ اور ایک ایسی نظم لکھ دی کہ جسے پڑھ کر واقعی ہر حسّاس آدمی اشک بار ہوجائے گا۔ اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: ۔


نہ دشمنوں پہ بھی میرے یہ وقت آئے میاں

جواں پسر سے خدا صبر آزمائے میاں


ہمیں دلاسہ بھی دینے کو کون آئے میاں

ہماری صورت گریاں کسے رجھائے میاں


ہمالہ جیسے دکھوں پر لہو نہ روئیں تو پھر

فرارِ غم کا ہی رستہ کوئی سجھائے میاں


ہمارا شیشہء نور نظر ہی ٹوٹ گیا

اب اپنا عکس ہمیں کیا کوئی دکھائے میاں


جواں بیٹے کی تدفین کرکے بھی اب تک

کھڑے ہیں زندگی کاندھوں پہ ہم اٹھائے میاں


منیف اشعؔر کے زیرِ نظر شعری مجموعہِ ' رختِ زندگی' میں حمد،نعت، اور غزل کا خاصہ اہم انتخاب موجود ہے۔ لیکن مطالعہ کے دوران میری نگاہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اسی مرثیہِ پر مرکوز رہی، جو منیف اشعؔر نے غالب کی طرح بہ طرز غزل لکھا ہے۔ مرحوم بیٹے دانش کو عارف کی جگہ رکھ کر دیکھیے ؂


ہاں اے فلکِ پیر،جواں تھا ابھی دانش

کیا تیرا بگڑتا،جو نہ مرتا کوئی دن اور


۔'رختِ زندگی' سے قبل منیف اشعؔر کا شعری مجموعہ “تلخ و شیریں” شائع ہوچکا ہے۔ جسے متعدد ناقدین نے سراہا ہے۔ منیف اشعؔر کا اپنا ایک اسلوب ہے۔ اور وہ غزل کہنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ اور یہ سلیقہ اردو کے کلاسیکی شعراء کے اثرات سے مملو نظر آتا ہے۔


منیف اشعؔر نے زندگی کے گرم و سرد کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان کی غزل میں دل و نظر کے معاملات بھِی ہیں، سماجی زندگی کی سُلگتی ہوئی چنگاریاں بھی ہیں، اور انسانی معاشرہِ میں پیدا ہونے والے ناقابلِ تلافی ، برداشتِ انسانی بلکہ غیر انسانی تجربات کا ردّ عمل بھی ہے۔ بعض تجربات تو ایسے ہیں کہ انہیں ہر دور کے حسّاس اور صاحبِ ضمیر شاعر نے محسوس کرکے جزو سخن بنایا ہے۔ عرفؔی کا یہ شعر بہت مشہور ہے، اور اس کے عہد اور ذاتی کرب کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے؂


عرفی تو میندیش زغوئے رقیباں

آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را


آج منیف اشعؔر یہی بات زبانِ اردو میں یوں ادا کررہے ہیں:۔


شورِ سگاں ہمیشہ سے مصروفِ کار ہے

رکتا ہے بھونکنے سے مگر کارواں کہاں


منیف اشعؔر نے اگرچہ غزل کے روایتی مضامین کو بھی اپنے کلام میں برقرار رکھا ہے،لیکن کہیں ذرا مختلف طرزِ احساس بھی ابھر کر آیا ہے:۔


بھلا میں ہی کیوں ہمیشہ سوئے کوئے یار جاؤں

اُسے چاہیے کہ وہ بھی مری سمت آئے جائے


میرے بارے میں زمانہ مرے بعد ہی لکھے گا

رکھی ہے چھپا کے سب نے ابھی اپنی اپنی رائے


منیف اشعؔر کے وہ اشعار جن میں احساس کی ہلکی ہلکی لہریں سمٹ آئی ہیں، ایک خاص تاءثر پیش کرتی ہیں

:۔

بھُلاتا ہوں تجھے تو کچھ دل میں

دھڑکنوں کی کمی سی لگتی ہے


وہ جو دہلیز پر قدم رکھ دے

صحن میں چاندنی سی لگتی ہے


یاد ہے مجھ کو ابھی تک التفاتِ اوّلیں

لگ رہا ہے آپ کا چہرہ مجھے دیکھا ہوا


منیف اشعؔر کا کلام کہیں بھی یکسانیت کا شکار نہیں ہوا۔ انھیں زبان اور شاعری کا رچاؤ ورثہِ میں ملا ہے۔ وہ خاصی مُدّت سے دیارِ مغرب میں مقیم ہیں۔ اور عالمی سطح پر ہونے والے تغیّرات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ تاہم، اپنے وطن میں جو آشوب خیز واقعات رونما ہوتے ہیں، جس طرح سیاست کی مہرہ بازی جاری رہتی ہے، اور جو کچھ ایسے ماحول میں اہلِ وطن پر گُزرتی ہے، اس کا احساس بھی منیف اشعؔر کے کلام میں پوری طرح نمایاں ہے۔


میں سمجھتا ہوں کسی بھی شعری مجموعہِ پر چند اہم گوشے ہی گرفت میں آتےہیں۔ اور ان کا بیان اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ممکن ہو تو صاحبِ کلام کی شخصیت اور شاعری تک پہنچنے کے لیے یہ چند تاءثرات ممد و معاون ثابت ہوں۔ منیف اشعؔر تمام نامُساعد حالات کے باوجود فکرِ سُخن میں مصروف ہیں۔ ابھی کس کس انداز کے چراغ ان کے تجرباتِ حیات کے ساتھ روشن ہوں گے، یہ آئندہ وقت ہی بتائے گا۔


مجھے یقین ہے کہ منیف اشعؔر کے کلام کا اکثر حصہ صاحبانِ ذوق کو پسند آئے گا۔


* * *


No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects