محسن بھوپالی
رختِ زندگی – شعری ارتقاء کا آئینہ دار
منیف اشعؔر کا نام اردو دنیا کے لیے اب نیا نہیں رہا ہے۔ ہر چند کہ ان کی مشقِ سُخن کا عرصہ تقریباً ربع صدی پر محیط ہے، لیکن، ان سے اہلِ سُخن کا محدود طبقہ ہی متعارّف تھا۔ اور یہ امرِ واقعی ہے کہ انکا اوّلین شعری مجموعہ”تلخ و شیریں” – مطبوعہ 2003 – اہلِ نقدونظر اور ادبی حلقوں میں ان کی صحیح پہچان بنا۔
۔”تلخ و شیریں” کے دیباچہ کے آخر میں منیف اشعؔر کے ایک شعر
مل نہ پائی مُختصر سی زندگی میں آگہی
عمر بھر لیکن یہ کارِ جستجو اچھا لگا
کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ “ادیب و فنکار کا جستجو کا سلسلہ ہی فکر و آگہی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ میری دعا ہے کہ منیف اشعؔر اسی طرح آگہی کی جستجو میں سرگرم رہیں، اور اپنی فکر کے نقوش صفحۂ قرطاس پر ثبت کرتے رہیں۔ “ ۔ مقامِ تشکّر و امتنان ہے کہ زیرِ نظر مجموعہ آگہی کے اسی جذبہ کا ترجمان ہے، جس کا اظہار انہوں نے مندرجہ بالا شعر میں کیا تھا۔
۔”رختِ زندگی” ان کی پچھلے پانچ چھ برسوں کی مشقِ سخن کا نمائندہ ہے، جو نہ صرف ان کی فکری تازگی کا مظہر ہے، بلکہ شعری ارتقاء کا بھی آئینہ دار ہے۔ منیف اشعؔر پُرگو شاعر ہیں، یہ بات اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ “رختِ زندگی” کا اصل مسوّدہ میری نظر سے گزرا ہے۔ اس مجموعہِ میں جتنی غزلیں شامل ہیں کم و بیش اتنی ہی غزلیں شائع [ *طبع]ہونے سے رہ گئی ہیں۔ اور جو غزلیں مجموعہِ میں دی گئی ہیں، ان میں بھی بیشتر طویل غزلوں کی تعریف میں آتی ہیں۔
ہمارے عہد کے اہم نقّاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے منیف اشعؔر کی شاعری کے بارے میں بجا طور پر اپنے تأثر کا اظہار کیا ہے کہ “منیف اشعؔر کی شاعری روایتی نظر آتی ہے، لیکن اسے واقعی روایتی خیال کرنا درست نہیں ہوگا۔ ان کے یہاں دراصل اس صالح اور جاندار روایت کا تسلسل ہے جو ماں کی کوکھ سے جنم لے کر حال کو سنوارتا ، اور مستقبل کی بشارت دیتا ہے۔” – فلیپ، “تلخ و شیریں” ۔
منیف اشعؔر کی شاعری روایت کے تسلسل میں ضرور ہے، لیکن انہوں نے روایتی مضامین کو بھی نئے زاویے اور نئے پہلوسے شعری پیکر عطا کیا ہے، اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ کیجیے:۔۔
مجھے پتا ہے وہ ہرجائی ہے مگر اشعؔر
وفا کے قحط میں اک یارِ بے وفا ہی سہی
ہمارے دستِ طلب میں کوئی سوال کہاں
انا پرستی کی اس سے بڑی مثال کہاں
شعر کہنے کا ہنر تم کو بھی شاید مل جائے
خوُنِ دل میں انگلیاں اپنی ڈبو کر دیکھ لو
جدھر بھی جاتا ہوں سب پوچھتے ہیں نام ترا
میں تیرے شہر میں کس کس کو رازداں کرلوں
تیری تصویر میں تھوڑی سی کمی باقی ہے
تُو بتا رنگِ وفا اس میں بھروں یا نہ بھروں
اشعؔر کی بعض غزلوں میں ایسے استعارے بھی نظر آتے ہیں جو آج کے معاشرتی تناظر میں کہے گئے ہیں: ۔۔
ہے کتنا پیار کس کی آنکھ میں، کتنی ہے نفرت
یہ بچّے کہہ نہیں سکتے، مگر پہچانتے ہیں
تمام شہر سے کچھ تم بھی مختلف تو نہیں
سو تم بھی آئے ہو، احوالِ سازگار کے بعد
نہ سامعین، نہ شعراء، نہ شاعرات ہیں کم
مشاعروں میں اگر ہے تو شاعری کم ہے
منیف اشعؔر نے چند ایک نئے مضامین بھی تراشے ہیں۔ کارِ تخلیق سے گزرنے والے اہلِ فن جانتے ہیں کہ فکر کا نیا زاویہ کم ہی گرفت میں آتا ہے۔ اشعؔر کے یہ اشعار بلا شبہ جدّتِ فکر کی مثال ہیں، اور ہمارے عہد کی غزلوں کے نمائندہ شعروں میں حوالہِ کے طور پر دیے جانے کے لائق ہیں:۔
کل یہیں شمس و قمر کی فصل بھی کاٹو گے تم
آج تھوڑے جگنوؤں کے بیج بو کر دیکھ لو
کلاہ و جبّہ و دستار ہیں ان کی ضرورت
جنھیں معلوم ہے شانوں پر سرکافی نہیں
بہت زیادہ نہ ہو رختِ زندگی اشعؔر
بس اتنا رکھیے کہ دنیا لگے سرائے میاں
ہے ذرِّہ، ذرِّہ کا کردار طے شدہ اشعؔر
تمام ارض و سما میں فضول کچھ بھی نہیں
میں بجھ گیا ہوں مگر اور سب تو روشن ہیں
کسی دیئے کو تو بجھنا ہی تھا ہوا کےلیے
واضح رہے کہ انٹرنیٹ پر جملہ کلام کی اشاعت کا منصوبہ زیرِ غورہے۔ *
جب کہ مطبوعہ شاعری کا ایک بڑا حصّہ اس وقت مرحلہ وار شائع کیا جارہا ہے، اور آپ کے سامنے ہے۔ [جستجو میڈِیا]۔۔
***
No comments:
Post a Comment