ڈاکٹر فرمان فتح پوری
کچھ رختِ زندگی کے بارے میں
سیّد منیف اشعر، اردو کے نہایت ہی معروف، اور صاحبِ دیوان شاعرہیں۔ صاحبِ دیوان اس معنی میں کہ ان کا ایک شعری مجموعہ، “تلخ و شیریں” کے نام سے شائع ہوچکا ہے، اور اہلِ نظر سے داد لے چکا ہے۔ اب وہ “رختِ زندگی” سے موسوم شعری مجموعہ لے کر آپ کے میرے سامنے آئے ہیں۔
میرا تأثر "رختِ زندگی" پر نظر ڈالنے سے یہ ہے کہ منیف اشعؔر صاحب، شاعری کی لطیف ترین شاخ، غزل کے شاعر ہیں۔ مانا کہ وہ نظم بھی خوب کہتے ہیں، لیکن غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نظمیں غزل نما ہوتی ہیں۔ یعنی، ان کی نظموں میں عموماً وہی رمزیت و ایمائیت اور وہی سادگی و پرکاری ہوتی ہے، جو غزل کی صفتِ خاص ہے۔ اس اجمالی نظر میں بطور مثال ان کی غزل گوئی کے بارے میں تجزیاتی انداز میں تفصیل سے کچھ لکھنے کا نہ تو یہ موقع ہے نہ محل، البتہ ان کی شاعری خصوصاً غزل گوئی کے سلسلہِ میں کچھ عرض کیا ہے۔ اس کے ثبوت میں چند اشعار دیکھتے چلیے، کیسے خوبصورت و حیات افروز ہیں: ۔۔
تمازت دھوپ کی جھیلی تو یہ فن مل گیا ہے
جو کل سایہ نہ دے گا وہ شجر پہچانتے ہیں
جمالِ یار کہاں نسبتِ جمال کہاں
ہمارا وہ مہء کامل کہاں ہلال کہاں
اترنا دل میں جو آتا نہیں تو پھر خود کو
کسی کی آنکھوں کے گرداب میں ڈبونا کیا
میرا وجود آپ کے پہلو میں جس طرح
اک پیالۂ شراب تھا اچھا لگا مجھے
اس کی آہٹ پہ یوں ہوا محسوس
دل کو چھو جائے جیسے پُروائی
ہجر کی دھوپ کا احساس نہ جائے جب تک
سائباں زلف کا تم اپنی بنائے رکھنا
شبِ ظلمت کی دھندلائی سحر کافی نہیں
نہ ہوجس میں بصارت وہ نظر کافی نہیں
وہی جو صاحبِ معراج ہیں خیرالبشرہیں
انھیں کے نقشِ پا ہیں میری منزل کے نشاں بھی
نشہ ہی اور تھا جاناں جو تیری آنکھ میں تھا
پھر اس کے بعد و ہ لطفِ شراب آ نہ سکا
جنھیں رکھتا ہے باطن میں بے سکوں دن رات اشعؔر
وہی محصور دنیا بے ضمیری چاہتے ہیں
یوں مری پلکوں سے ٹکراتی ہیں موجیں شب بھر
اک سمندر کہیں آنکھوں میں رواں ہو جیسے
ان اشعار اور اس نوع کے درجنوں اشعار جو منیف اشعؔر کی غزل کی معرفت ہمارے سامنے ہیں، ان کی روشنی میں باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پہلے شعری مجموعہِ “تلخ و شیریں” کی طرح ان کا تازہ شعری مجموعہ “رختِ زندگی” بھی قبول عام حاصل کرے گا،ا ور اردو غزل کے حوالہِ سے منیف اشعؔر کی بلند قامتی میں اضافہ کرے گا۔
***
No comments:
Post a Comment