جو دیدہ ور ہیں وہ سمَتِ نظر پہچانتے ہیں گریں گی بجلیاں اب کے کدھر پہچانتے ہیں
|
کہاں ڈرتے ہیں اپنی آستیں کے سانپ سے ہم ہے کتنا زہر اس کا پُرخطر پہچانتے ہیں
|
تمازت دھوپ کی جھیلی تو یہ فن مل گیا ہے جو کل سایہ نہ دے گا وہ شجر پہچانتے ہیں
|
تم اپنے شہر میں لوگوں کے چہرے پڑھ نہ پائے ہم اپنے جنگلوں کے جانور پہچانتے ہیں
|
ہے کتنا پیار کس کی آنکھ میں، کتنی ہے نفرت یہ بچّے کہہ نہیں پاتے، مگر پہچانتے ہیں
|
تمہارے سبز باغوں میں کشش بے حد ہے لیکن مُقدّر کا ہم اپنے ماحضر پہچانتے ہیں
|
وہ کیا جانیں کدھر سے آئے گی آندھی وگرنہ اشارہ کیوں نہیں کرتے، اگر پہچانتے ہیں
|
ہوا کا رخ بھلا کیسے انہیں بھٹکاسکے گا جو منزل کے لیے سَمتِ سفر پہچانتے ہیں
|
مری آہ و فغاں سن کر وہ یہ کہتے ہیں اشعؔر سُخن میں ہے ترا خونِ جگر پہچانتے ہیں
|
|
کلیات منیف اشعر - رختِ زندگی میں خوش آمدید
Showing posts with label جو دیدہ ور ہیں وہ سمَتِ نظر پہچانتے ہیں، کلام منیف اشعر، رخت زندگی، جستجو میڈیا، کینیڈا میں اردو. Show all posts
Showing posts with label جو دیدہ ور ہیں وہ سمَتِ نظر پہچانتے ہیں، کلام منیف اشعر، رخت زندگی، جستجو میڈیا، کینیڈا میں اردو. Show all posts
Sunday, April 26, 2009
جو دیدہ ور ہیں وہ سمَتِ نظر پہچانتے ہیں
Subscribe to:
Posts (Atom)